Bhula Na Sakenge🥺||💔Sad Status 😭||Sad Shayari Status 😞||Sad Poetry Status💔




Break up 

لوگ جدا ہوئے اور بھی لیکن 

ایک تیرا جدا ہونا مجھ کو ویران کر گیا

ختم تعلق کرے تو کوئی غم نہیں

یہ بات بھی سہہ جائیں گے اُس کی خوشی میں ہم

تونے ہمیشہ آنے میں دیر کر دی

میں نے ہمیشہ اپنی گھڑی کو خراب سمجھا

جدھر جاتے ہیں سب جانا ادھر اچھا نہیں لگتا

مجھے پامال رستوں کا سفر اچھا نہیں لگتا

الوداع سال گذشتہ

خوشیاں ملیں غم بھی ملے اس سال میں ہمیں

اچھے برے دن بھی ملے اس سال میں ہمیں

خاموشی سے بکھرنا آ گیا ہے

ہمیں اب خود اجڑنا آ گیا ہے

آنکھ لگتی ہی نہیں خوف ہے طاری ایسا

خواب آتے ہیں سبھی تجھ سے بچھڑنے والے


عید کے چاند کی مانند ہوا ہے شاید

ہائے وہ جو روز ملا کرتا تھا خوابوں میں


خاموشی رات کی دیکتھا ہوں اور تجھے سوچتا ہوں

مد ہوش اکثر ہوجاتا ہوں اور تجھے سوچتا ہوں

ہونٹوں پہ ہے خاموشی موت کی

آنکھوں میں ہے تاریکی موت کی

کچھ کہنے کا وقت نہیں یہ کچھ نہ کہو خاموش رہو

اے لوگو خاموش رہو ہاں اے لوگو خاموش رہو

اس نے توڑا وہ تعلق جو میری ذات سے تھا

اسے رنج ناجانے میری کس بات سے تھا


اے دوست ہم نے ترکِ تعلق کے باوجود

محسوس کی ہے تیری ضرورت کبھی کبھی


تمھارے بعد خاموشی کا منظر

دل ناشاد خاموشی کا منظر

تیری خوشیوں کا سبب یار کوئی اور ہے ناں

دوستی مجھ سے اور پیار کوئی اور ہے ناں

تجھ کو بھولا نہیں وہ شخص کہ جو

تیری بانہوں میں بھی اکیلا تھا

خوشبو جیسے لوگ ملے افسانے میں

ایک پرانا خط کھولا انجانے میں

ہماری آنکھوں میں بے وجہ آ گئے آنسو

یقین کیجے کسی بات پر نہیں آئے

موت سے کہو ذرا انتظار کرے 

ابھی امید ہے مجھے اس کے آنے کی

آپ کی آنکھ سے گہرا ہے مری روح کا زخم

آپ کیا سوچ سکیں گے مری تنہائی کو

کیا دکھ ہے سمندر کو بتا بھی نہیں سکتا

آنسو کی طرح آنکھ تک آ بھی نہیں سکتا

کبھی اس درد سے گزرو تو معلوم ہو تم کو 

جدائی وہ بیماری ہے جو دل کا خون پیتی ہے

اس رات بڑی خاموشی تھی

میں اس کو ڈھونڈنے نکلا تو

اس رات دریچے خالی تھے

خاموشی کو بیوفائی کہنا لازمی تھا

ورنہ ہم تمہاری نظروں میں ُاتر جاتے

ٹوٹا ھے دل ھمارا تمھارا تو نہیں

میں تھک کے گرا ھوں ابھی ہارا تو نہیں

مجروح کر کے اب حالِ دِل کا پوچھو گے

کھوج کرو تو خود کو نا قابل معافی پاؤ گے

دل میں افسوس آنکھوں میں نمی سی رہتی ہے

زندگی میں شاید کوئی کمی سی رہتی ہے

یہ عجب جدائی تھی تجھے الوداع بھی نہ کہہ سکے

تیرے پاس رہنے کا سوچا تھا تیرے شہر میں بھی نہ رہ سکے

وقت نے صبر کرنا سیکھا دیا 

ورنہ ہم تو تیرا دور جانا موت سمجھ بیٹھے تھے

آنکھوں میں ستارے تو کئی شام سے اترے

پر دل کی اداسی ، نہ در و بام سے اترے

بچھڑنے کی اتنی جلدی تھی اسے 

خود کو چھوڑ گیا آدھا مجھ میں

 کیوں کسی اور کو دکھ درد سناؤں اپنے

اپنی آنکھوں سے بھی میں زخم چھپاؤں اپنے



تم سے اب پہلے سا تعلق تو نہیں

یہ اور بات ہے تمھیں بھولا پائے نہیں

اپنے آنچل میں چھپا کر مرے آنسو لے جا

یاد رکھنے کو ملاقات کے جگنو لے ج

تم سے ترک تعلق کے باوجود

محسوس کی ھے تیری کمی کبھی کبھی

اس کو جدا ہوئے بھی زمانہ بہت ہوا

اب کیا کہیں یہ قصہ پرانا بہت ہوا

قصے میری الفت کے جو مرقوم ہیں سارے

آ دیکھ تیرے نام سے موسوم ہیں سارے

مدت ہوئی بچھڑے ہوئے اک شخص کو لیکن

اب تک در و دیوار پہ خوشبو کا اثر ہے

بہت رویا وہ ہم کو یاد کر کے

ہماری زندگی برباد کر کے

چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے

ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانا یاد ہے

ہے آج یہ گلہ کہ اکیلا ہے شہریارؔ

ترسو گے کل ہجوم میں تنہائی کے لئے

روگ ایسے بھی غم یار سے لگ جاتے ہیں

در سے اٹھتے ہیں تو دیوار سے لگ جاتے ہیں

کبھی کبھی جینے کے لئے جدائی ایسے ضروری ہو جاتی ہے 

جیسے جنت پانے کے لئے موت ضروری ہو جاتی ہے

خاموشی دم توڑ گئی

مجھ سے ناطہ توڑ گئی

ترک-تعلق كی ھم سے يہ اب شكايت كيسی پری

محبت كے رشتوں ميں كھايا ھے دھوكہ بہت

لوگوں نے ميری چاہتوں كا مزاق اڑايا ھے بہت

آج سوچا تو آنسو بھر آئے

مدتیں ہو گئیں مسکرائے

توڑ کے دل معافی کا تقاضا کرتے ہیں

گنہگار کرتے ہیں جب یہ تقاضا کرتے ہیں

ہے مجھے یاد اب بھی وه ساون کی رات

تهی وه تجه سے میری الوداعی ملاقات

دھند کے پار نظاروں میں کہیں رہتا ہے

وہ شخص وقت کے دھاروں میں کہیں رہتا ہے

اگر وہ بچھڑ کر جی سکتے ہیں 

تم مر ہم بھی نہیں جائیں گے

تعلق تو ڑتا ہوں تو مکمل توڑ د یتا ہوں

جسے میں چھوڑ د یتا ہوں تو مکمل چھو ڑ دیتا ہوں

اے چاند تو کتنا خو ش نصیب ہے پھرتا ہے گلی گلی

ہم کتنے بد نصیب ہیں ملتے ہیں کبھی کبھی

بس اب ترک تعلق کے بہت پہلو نکلتے ہیں

سو اب یہ طے ہوا ہے شہر سے سادھو نکلتے ہیں

اچھی صورت پہ غضب ٹوٹ کے آنا دل کا

یاد آتا ہے ہمیں ہائے زمانا دل کا

تیرا بچھڑنا کوئی عام واقعہ نہ تھا 

کئی برس لگے خود کو یقین دلاتے ہوئے

تیری خاموشی میں ایک راز چھپا ہے

تیری اداسی میں ایک درد چھپا ہے

بچھڑنے کی اتنی جلدی تھی اسے 

خود کو چھوڑ گیا آدھا مجھ میں

اپنے انداز کا اکیلا تھا

اس لئے میں بڑا اکیلا تھا

آنکھیں رہتی ہیں شام و سحر منتظر تیری

آنکھوں کو سونپ رکھا ہے انتظار تیرا

اس کو جدا ہوئے بھی زمانہ بہت ہوا

اب کیا کہیں یہ قصہ پرانا بہت ہوا

ختم تعلق کرے تو کوئی غم نہیں

یہ بات بھی سہہ جائیں گے اُس کی خوشی میں ہم


جو ملتے ہیں دوست وہ بچھڑتے ہیں ضرور 

میں نادان تھا جو اک شام کی ملاقات کو زندگی سمجھ بیٹھا

وہ جو ہاتھ تک لگانے کو سمجھتا تھا بے ادبی 

گلے لگ کے رو دیا بچھڑنے سے ذرا پہلے

دوستی کا ہاتھ

گزر گئے کئی موسم کئی رتیں بدلیں

اداس تم بھی ہو یارو اداس ہم بھی ہیں

یونہی دیکھا ہے گھڑی کی جانب 

ہمیں کسی کا انتظار تھوڑی ہے

رات تاریک راستے خاموش

منزلوں تک ہیں قمقمے خاموش

جو گزاری نہ جا سکی ہم سے

ہم نے وہ زندگی گزاری ہے

تعلق تو ٹوٹے گا کیسے

 کبھی خاہش کبھی حسرت بن کر

دل میں یاد الہی آتی ہے بار بار

ترکِ تعلق ہے نہ یہ بے مروتی

خواہش کے احترام میں ہیں، بندشیں خود پر

پھر ہوا یوں کہ اعتبار ٹوٹا دل ٹوٹا

ایک عمر تک

میں خود کو

ترک تعلقات پہ رویا نہ تو نہ میں

لیکن یہ کیا کہ چین سے سویا نہ تو نہ میں

ایک چاند اکیلا ہے ستاروں کے بیچ میں

میری پسند ہے تو ہزاروں کے بیچ میں

تعلق اس طرح توڑانہی کرتے

کہ پھر سے جوڑنا دشوار ہو جائے

الوداعی میں انکے چہرے کو تکتے رہے دیر تک

پھر اسکے بعد انکا دیدار میسر نہ آسک

بہتر یہی تھا کہ مر جاتے یا مار دیتے 

یہ بچھڑ کے اذیت میں ڈال دیا تو نے

دل ابھی ٹوٹا نہ تھا کہ سوال اٹھ گئے۔

آ گے سے کچھ اور ہی وبال اٹھ گئے

دل ابھی ٹوٹا نہ تھا کہ سوال اٹھ گئے

ستاروں سے الجھتا جا رہا ہوں

شب فرقت بہت گھبرا رہا ہوں

کوئی سدا منتظر نہیں رہتا 

ہر تعلق مسافرانہ ہے

بس اب ترک تعلق کے بہت پہلو نکلتے ہیں

سو اب یہ طے ہوا ہے شہر سے سادھو نکلتے ہیں

روح پیاسی کہاں سے آتی ہے

یہ اداسی کہاں سے آتی ہے

موت سے پہلے بھی اک اور موت ہوتی ہیں 

دیکھو زرا تم کسی اپنے سے جدا ہو کر

تیرے ہجر سے تعلق کو نبھانے کے لئے 

میں نے اس سال بھی جینے کی قسم کھائی ہے

کچھ کہوں، کچھ سنوں، ذرا ٹھہرو

ابھی زندوں میں ہوں، ذرا ٹھہرو

میں اکیلا چلا تھا پیروں سےجنگ کرنے

ان کہ غنڈےآتے رہے مجھےتنگ کرنے

منزلیں بھی اُس کی تھیں راستہ بھی اُس کا تھا

اک میں اکیلا تھا قافلہ بھی اُس کا تھا

خاموشی بحران صدا ہے تم بھی چپ ہو ہم بھی چپ

سناٹا تک چیخ رہا ہے تم بھی چپ ہو ہم بھی چپ

جب سے ٹوٹا ہے یہ دل

اب بےقرار نہیں رہتا

تعلق تو ٹوٹے گا کیسے

 کبھی خاہش کبھی حسرت بن کر

دل میں یاد الہی آتی ہے بار بار

یاد آؤں گا ہر گھڑی تم کو

ایک بار بچھڑ تو جانے دو

دل میرا بن کے آئینہ ٹوٹا

تیری محفل میں بارہا ٹوٹا

میں دل پہ جبر کروں گا تجھے بھلا دوں گا

مروں گا خود بھی تجھے بھی کڑی سزا دوں گا

میں نے تصویر پھینک دی ہے مگر

کیل دیوار میں گڑی ہوئی ہے

تو بھی چپ ہے میں بھی چپ ہوں یہ کیسی تنہائی ہے

تیرے ساتھ تری یاد آئی کیا تو سچ مچ آئی ہے

آنسوؤں کو بہنے کی لت لگ گئی ہے

کچھ نہیں دیکھتے جن آنکھوں سے وہ بہہ رہے ہیں

تمہارے خط میں نیا اک سلام کس کا تھا

نہ تھا رقیب تو آخر وہ نام کس کا تھا

چل نکلتی ہیں غم یار سے باتیں کیا کیا

ہم نے بھی کیں در و دیوار سے باتیں کیا کیا

ترک تعلقات کے بعد

سنا ہے سامنے سب کے وہ اکثر مسکراتی ہے

مگر تنہائیوں میں ٹوٹ کر آنسو بہاتی ہے

خاموشی کہہ رہی ہے

اے مُسافر سُنو! میری قبر ہی سجا جاؤ

اُن کے آنگن کے شجر کی یہاں ڈالی ہی لگا جاؤ

اس نے توڑا وہ تعلق جو میری ذات سے تھا

اسے رنج ناجانے میری کس بات سے تھا

دل اپنا ٹوٹا تو کیا ہوا

سا تھ اْن سے چْھوٹا تو کیا ہو

بے خودی میں لے لیا بوسہ خطا کیجے معاف

یہ دل بیتاب کی ساری خطا تھی میں نہ تھا

کل ہمیشہ کی طرح اس نے کہا یہ فون پر

میں بہت مصروف ہوں مجھ کو بہت سے کام ہیں

کام کی بات میں نے کی ہی نہیں

یہ مرا طور زندگی ہی نہیں

رنجش ہی سہی، دل ہی دُکھانے کے لیئے آ

آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے

کچھ کہنے کا وقت نہیں یہ کچھ نہ کہو خاموش رہو

اے لوگو خاموش رہو ہاں اے لوگو خاموش رہو


خاموشیوں کا موسم سرگوشیوں کا موسم

ایک دردِ لا دوا ہے مدہوشیوں کا موسم


تیرا بچھڑنا کوئی عام واقعہ نہ تھا 

کئی برس لگے خود کو یقین دلاتے ہوئے

لبوں پہ آپ کے یہ خاموشی اچھی نہیں لگتی

گلہ شکوہ ہی کر ڈالو کہ کچھ وقت کٹ جائے فراز

لبوں پہ آپ کے یہ خاموشی اچھی نہیں لگتی

ٹوٹا دل

میری آنکھیں دھواں دھواں سی

اور دل بھی ہے ٹوٹا ٹوٹا سا

تجھ کو بھولا نہیں وہ شخص کہ جو

تیری بانہوں میں بھی اکیلا تھا

تم جب آؤگی تو کھویا ہوا پاؤگی مجھے

میری تنہائی میں خوابوں کے سوا کچھ بھی نہیں

بادشاہوں کو سکھایا ہے قلندر ہونا

آپ آسان سمجھتے ہیں منور ہونا

وہ ترک تعلق کا ا شارہ نہیں کرتے

ہر بات بھی اب ہم سے گوارہ نہیں کرتے

ذرا سی دیر جلے جل کے راکھ ہو جائے

وہ روشنی دے بھلے جل کے راکھ ہو جائے

سچ کہوں سہا نہیں جاتا

جب تم روٹھ جاتے ہو،

مڑ کر دیکھنے کی جرات وہی کرتا ہے 

جس کو یہ یقین ہو کہ پیچھے کوئی منتظر ہوگا

الوداع کہنے کو دل نہیں مانتا

پہلے دن ملے تھے انجان تھے جو

آج ایک دوسرے کی جان ہو گئے

ہم تیرے ہجر میں یوں زرد ہوئے جاتے ہیں 

لوگ تکتے ہیں تو ہمدرد ہوئے جاتے ہیں

سرد موسم میں اداسی اچھی نہیں لگتی

پیار میں یار کی خاموشی اچھی نہیں لگتی

معاف کرنا ذہن سے نکل گیا ہے

تم سے جو کہنا تھا ہو کہ روبرو

نیا اک رشتہ پیدا کیوں کریں ہم

بچھڑنا ہے تو جھگڑا کیوں کریں ہم

تم ترک تعلق کا زکر کسی سے مت کرنا

میں یہ کہہ دوں گا کہ فر صت نہیں ملتی

اے دوست ہم نے ترکِ تعلق کے باوجود

محسوس کی ہے تیری ضرورت کبھی کبھی

الوداع کیسے کہوں

زخم زخم ھے زباں

کون کہتا ہے میں اکیلا ہوں

اُن راہوں پر ہمیشہ میں جس کے ساتھ چلتا تھا

آج اُن راہوں پر اپنی تنہائیوں کے ساتھ چلتا ہوں

آج بڑی خاموشی سے گزارہ کیا

صرف ایک ہم عمر کو اشارہ کیا

یہ ٹھیک ہے کہ تیری بھی نیندیں اجڑ گئیں 

تجھ سے بچھڑ کے ہم سے بھی سویا نہیں گیا

تعلق ٹوٹا نہیں کرتے

خفا ہونا منا لینا

یہ صدیوں سے روایت ہے

یہ رابطوں میں غفلت یہ بھولنے کی عادت

کہیں دور ہو نہ جانا یونہی دور رہتے رہتے

آج جن جھیلوں کا بس کاغذ میں نقشہ رہ گیا

ایک مدت تک میں اُن آنکھوں سے بہتا رہ گیا

تم سے ترک تعلق کے باوجود

محسوس کی ھے تیری کمی کبھی کبھی

میں نے جو کچھ بھی سوچا ہوا ہے وہ میں وقت آنے پر کر جاؤں گا

تم مجھے زہر لگتے ہو اور میں کسی دن تمہیں پی کر مر جاؤں گا

جمع ہم نے کیا ہے غم دل میں

اس کا اب سود کھائے جائیں گے

ترکِ تعلق کے سارے ہی مرحلے اسد

میں دیکھتا ہی رہ گیا وہ پار کر گیا

الوداع اے دوست

تیری دوستی میں فنا ہو رہے ہیں

تڑپتا ہے دل کہ جدا ہو رہے ہیں

سو بار یہ دل ٹوٹا، سو بار ہوئے سودائی

جب بھی کسی لڑکی نے ہم کو ہے کہا بھائی

شام کی خاموشی میں یہ شور کیسا ہے

راہوں سے پوچھتے ہیں یہ موڑ کیسا ہے

حسیں تیری آنکھیں حسیں تیرے آنسو

یہیں ڈوب جانے کو جی چاہتا ہے

خاموشیوں کے طوفاں کو یوں نہ الجھایا کر

اپنی حالت زار سے کچھ تو بتایا کر

تیرے ہجر سے تعلق کو نبھانے کے لئے 

میں نے اس سال بھی جینے کی قسم کھائی ہے

تعلق تو ڑتا ہوں تو مکمل توڑ د یتا ہوں

جسے میں چھوڑ د یتا ہوں تو مکمل چھو ڑ دیتا ہوں

یوں تو کہنے کو بہت لوگ شناسا میرے

کہاں لے جاؤں تجھے اے دلِ تنہا میرے

قصے میری الفت کے جو مرقوم ہیں سارے

آ دیکھ تیرے نام سے موسوم ہیں سارے

اگر یقیں نہیں آتا تو آزمائے مجھے

وہ آئنہ ہے تو پھر آئنہ دکھائے مجھے

ہر جدائی کا سبب بیوفائی ہی نہیں ہوتا

کچھ جدائی کا سبب اک دوسرے کی بھلائی بھی ہے

اگرچہ میں اک چٹان سا آدمی رہا ہوں

مگر ترے بعد حوصلہ ہے کہ جی رہا ہوں

دسبمر تو یوں ہی بدنام ہے یارو

بچھڑنے واے تو جون جولائی میں بھی بچھڑ جاتے ہیں

نا جانے ریت کی طرح کیوں نکل جاتے ہیں وہ لوگ 

جن کو ہم زندگی سمجھ کر کبھی کھونا نہیں چاہتے

وہ دل کہاں سے لاؤں تیری یاد جو بُھلا دے

مجھے یاد آنے والے کوئی راستہ بتا دے

اب کسی سے مرا حساب نہیں

میری آنکھوں میں کوئی خواب نہیں

ترک تعلقات کی قیمت نہ پوچھیے

بکھرے ہوئے جذبات کی حسرت نہ پوچھیے

تعلق اس طرح توڑانہی کرتے

کہ پھر سے جوڑنا دشوار ہو جائے

راز الفت چھپا کے دیکھ لیا

دل بہت کچھ جلا کے دیکھ لیا


خاموشی ٹوٹ جاتی ہے

سنو

بڑا مان ہے نا تمہیں ۔۔۔۔۔اپنے لہجے پر

ترک-تعلق كی ھم سے يہ اب شكايت كيسی پری

محبت كے رشتوں ميں كھايا ھے دھوكہ بہت

لوگوں نے ميری چاہتوں كا مزاق اڑايا ھے بہت

اتنا تو ہوا اے دل اک شخص کے جانے سے

بچھڑے ہوئے ملتے ہیں کچھ دوست پرانے سے


ترک تعلقات کی قیمت نہ پوچھیے

بکھرے ہوئے جذبات کی حسرت نہ پوچھیے

جھکا کے سر خاموشی پہ اصرار کیا ہے

اقرارِ محبت کا یوں اظہار کیا ہے

آپ نے تصویر بھیجی میں نے دیکھی غور سے

ہر ادا اچھی خموشی کی ادا اچھی نہیں

کٹھن تنہائیوں سے کون کھیلا میں اکیلا

بھرا اب بھی مرے گاؤں کا میلہ میں اکیلا

تم سے اب پہلے سا تعلق تو نہیں

یہ اور بات ہے تمھیں بھولا پائے نہیں

ہم سمجھ گئے ساری

تمہاری ان کہی باتیں

ٹوٹا ہوا دل کیوں نہ گبھرائے

شکستہ دیواروں کے مکان گر جاتے ہیں

ترکِ تعلق کے سارے ہی مرحلے اسد

میں دیکھتا ہی رہ گیا وہ پار کر گی

خاموشی میں پیار کے اظہار بھی ہیں

پس پردہ چاہت کے اثار بھی ہیں

درد بڑھتا ہی رہے ایسی دوا دے جاؤ

کچھ نہ کچھ میری وفاؤں کا صلا دے جاؤ

اس گلی نے یہ سن کے صبر کیا

جانے والے یہاں کے تھے ہی نہیں

ترکِ تعلق ہے نہ یہ بے مروتی

خواہش کے احترام میں ہیں، بندشیں خود پر

اے محبت تیرے انجام پہ رونا آیا

جانے کیوں آج تیرے نام پہ رونا آیا

کسی کو الوداع کہنا بہت تکلیف ہوتی ہے

کسی کو الوداع کہنا

دیکھائی کچھ نہیں دیتا